Add To collaction

16-Dec-2021 حضرت سلیمان علیہ السلام

حضرت سلیمان علیہ السلام
قسط_نمبر_ 7
ساتواں_حصہ 
ہُد ہُد بحیثیت مہندس
مہندس عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی علمِ ہندسہ کا عالم اور ماہر اقلیدس کے ہیں۔ اس کے علاوہ نجومی اور جوتشی کو بھی مہندس کہا جاتا ہے۔ پرندوں کے متعلق عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ وہ فہم و شعور اور ادراک سے محروم ہوتے ہیں، لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام کا ہُد ہُد، اشرف المخلوقات کی سی عقل اور شعورو ادراک رکھتا تھا۔ معاملہ فہمی، سلیقہ مندی اور احکامات کی تکمیل اس کے خاص اوصاف میں سے تھے۔ اس کی دیگر ذمہ داریوں میں سے ایک یہ فرض بھی اسے سونپا گیا تھا کہ دورانِ سفر جب پانی کی ضرورت ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ایسی بصارت عطا کی تھی کہ جس زمین میں پانی ہوتا۔ وہ دور سے دیکھ کر بتا دیتا۔ تختِ شاہی وہیں اتارا جاتا۔ جہاں ہُد ہُد نشان بتاتا۔ پھر وہاں سے زمین کھود کر پانی نکال لیا جاتا اور ضرورت پوری کر لی جاتی۔ اسے یہ بھی علم ہوتا تھا کہ پانی کتنی کھدائی کرنے کے بعد نکلے گا۔ اسے زمین کے اندر کا پانی ایسے دکھائی دیتا، جیسا کہ زمین کے اوپر کی چیزیں دکھائی دیتی ہیں، اسی لیے مختلف مفسرین نے اسے مہندس پرندے کا نام دیا ہے۔
               #نقش سلیمان علیہ السلام
حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس ایک انگوٹھی تھی جس پر اللہ کا نام کندہ تھا۔ جب آپ علیہ السلام غسل خانے جاتے تو وہ انگوٹھی اپنی بیوی جرادہ یا بعض روایات کے مطابق اپنی خادمہ امینہ کی حفاظت میں دے جاتے۔ ایک روز آپ غسل کے لیے تشریف لے گئے تو صخرہ نام کا شیطان جو آپ کا بہت مخالف تھا۔ وہ آپ کی شکل میں آیا اور آ پ کی بیوی سے انگوٹھی لے لی۔ انگوٹھی کا آپ سے جدا ہونا تھا کہ تخت و تاج اور سلطنت سبھی کچھ آپ کے ہاتھ سے جاتا رہا۔ سب چیزوں پر شیطان کا قبضہ ہو گیا۔ آپ نہایت پریشانی کے عالم میں محل سے نکل گئے۔ اس شیطان نے چالیس دن حکومت کی۔ اصول و ضوابط اور احکام میں تبدیلی نے علما اور دیگر اہلِ دربار و اہل خانہ کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ یہ سلیمان علیہ السلام نہیں اور اگر سلیمان علیہ السلام ہی ہیں تو کیا ان کا شعور و ادراک درست کام کر رہا ہے۔ علما نے اس کا حل یہ نکالا کہ تخت کے اردگرد تورات کھول کر بیٹھ گئے اور کلامِ الہٰی کی تلاوت شروع کر دی۔ شیطان کے چہار جانب خدا کا کلام پڑھنے سے وہ تیزی سے بھاگ نکلا اور انگوٹھی سمندر میں پھینک دی۔ ادھر سلیمان علیہ السلام چلتے چلتے مچھیروں کی بستی کی طرف جا نکلے تھے اور مچھیرے کے ہاں ملازمت کر لی۔ دن بھر کے کام کاج کے بعد اجرت کے طور پر آپ کو دو مچھلیاں دی جاتیں۔ ایک روزآپ علیہ السلام بھوک سے بے حال ہو رہے تھے جلدی سے مچھلی صاف کرنے کے لیے اس کا پیٹ چاک کیا تو مچھلی کے پیٹ سے انگوٹھی نکل آئی۔ انگوٹھی کا ملنا تھا کہ اسی لمحہ پرندوں کے جھنڈ نے آ کر آپ پر سایہ کر لیا۔ آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ عوام و خواص نے آپ علیہ السلام کو پہچان لیا اور معذرت طلب کی۔ بہرحال آپ نے اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک آزمائش جانا۔
صدیوں پرانے تختِ سلیمان کی جدید ارتقائی صورت ہم آج کے تیز ترین خلائی راکٹوں اور جیٹ طیاروں کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔
مختلف تفاسیر اور اسرائیلی روایتوں میں اس کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔ اورنگ سلیمان، تختِ سلیمان یا کرسی ء سلیمان کے متعلق تفسیر ابنِ کثیر میں رقم ہے کہ یہ ہاتھی دانت کا بنا ہوا تھا۔ قیمتی ہیرے جواہرات، یاقوت اصل فیروزہ اور زمرد سے سجا ہوا تھا۔ چاروں طرف سونے کی اینٹوں سے حاشیہ بنا ہوا تھا۔ چاروں کونوں پر چاندی کے درخت اور سونے کی ڈالیاں تھیں۔ پتے زمرد کے تھے۔ خوشے موتیوں سے لدے ہوئے تھے جو انگوروں کے خوشوں سے مماثل تھے۔ ہر درخت پر طوطی اور مور موجود تھے۔ بعض مقامات پر سونے کے گدھ کی موجودگی بھی بیان کی گئی ہے۔ تختِ سلیمان کے حدود اربعہ کا تعین بھی کچھ آسان نہیں۔ بعض مقامات پر اس کی لمبائی تین سو کوس بتائی گئی ہے۔
تخت کی سجاوٹ اور طول و عرض کے سلسلے میں جو مختلف روایتیں بیان کی گئی ہیں ان میں مبالغہ بلکہ غلوسے کام لیا گیا محسوس ہوتا ہے۔
قرآن پاک میں اس کی حقیقت یوں واضح کی گئی ہے کہ جب آپ تخت شاہی پر قدم رکھتے تو وہ ہیبت سے حرکت میں آ جاتا۔ ہوا کو حکم دیتے۔ ہوا اُسے لے اُڑتی اور جہاں پہنچانے کا حکم دیا جاتا وہاں پہنچا دیتی۔ دوران سفر پرندوں کے جھنڈ پورے تخت پر اپنے پروں کا سایہ کیے رکھتے۔ شام سے یمن اور یمن سے شام ایک ماہ کی مسافت پر تھا، لیکن یہ تخت آدھے دن میں لے جاتا۔
’’ہم نے داؤد کو سلیمان نامی فرزند عطا فرمایا۔ جو بہت خوب بندے تھے اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ جب شام کے وقت ان کے سامنے خاص تیز دوڑنے والے گھوڑے پیش کیے گئے تو کہنے لگے میں نے اپنے پروردگار کی یاد پر ان گھوڑوں کی محبت کو ترجیح دی۔ یہاں تک کہ سورج پردے میں چھپ گیا۔ تو بولے کہ ان کو واپس لاؤ۔ پھر ان کی ٹانگوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔ ‘‘ ۳۹ ؎
حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ ء بادشاہت میں ان کے سامنے شاہی اصطبل کے گھوڑے پیش کیے گئے۔ جہاد کی غرض سے پرورش کیے گئے ان گھوڑوں کی بہت دیکھ بھال کی جاتی تھی۔ ایک قول کے مطابق ان کی تعداد بیس تھی۔ بعض روایات میں ان کی تعداد ایک ہزار ہے۔ ابراہیم تمیمی نے ا ن کی تعداد بیس ہزار بتائی ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام ان گھوڑوں کے قدو قامت اور صحت دیکھ کر خوش ہو رہے تھے اور انھیں دیکھنے میں اس حد تک محو ہوئے کہ عصر کی نماز، وظیفے یا دُعا کا وقت نکل گیا۔ جب انھیں اس بات کا احساس ہوا تو بہت پشیمان ہوئے۔ اسی غم و غصے کی حالت میں دوبارہ گھوڑے منگوائے اور تمام گھوڑے ذبح کر دیے جو اس کوتاہی کا سبب بنے تھے کہ میں ایسی چیز اپنے پاس رکھنا ہی نہیں چاہتا، جو مجھے خدا کی یاد بھلا دے، چنانچہ ان کی کوچیں کاٹ دی گئیں۔ ان کی گردنیں مار دی گئیں۔ اللہ کی رضا اور محبت کے لیے بہترین گھوڑے، اظہارِ ندامت میں ذبح کرنے پر اللہ کو ان کی قربانی پسند آئی اور انھوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو ایک اور ایسے انعام سے نوازا جو صرف انھی سے مخصوص ہے، یعنی ہوا ان کے لیے مسخر کی گئی۔ دوسری روایت جو حضرت حسن بصریؒ سے منسوب ہے، وہ یہ ہے کہ گھوڑوں کی دیکھ بھال میں نماز عصر ذہن سے محو ہو گئی۔ جب وقت نکل گیا تب یاد آیا۔ گھوڑوں کو اصطبل سے دوبارہ منگوایا اور ان کی گردنوں پر، پنڈلیوں پر ہولے ہولے مارنا شروع کیا اور فرمایا کہ آئندہ تم اللہ کی یاد میں مخل نہ ہونا۔
تیسری روایت عبداللہ بن عباس سے ہے، جہاں نماز عصر کے قضا ہونے کا کہیں ذکر نہیں ہے بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ جہاد کی تیاری کے لیے گھوڑوں کا معائنہ کیا اور انھیں بہترین حالت میں پایا تو خوش ہو کر فرمایا کہ ان گھوڑوں سے میری محبت ایسی مالی محبت میں شامل ہے جو اللہ ہی کی یاد کا ایک حصہ ہے۔ گھوڑوں کے جانے کے بعد انھیں واپس بلایا تو صرف اس خیال سے کہ وہ جہاد میں شریک ہوں گے تو آلات جہاد سے مانوس کرنے کے لیے یہ آلات و ہتھیار ان کی گردنوں اور پنڈلیوں پر پھیرنے لگے کہ کہیں وقتِ جہاد، نامانوسیت کی بنا پر وہ ان سے خوفزدہ نہ ہو جائیں۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام کو اپنی غفلت پر افسوس ہوا، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کا استغفار قبول ہوا اور اللہ تعالیٰ نے انھیں گھوڑوں سے کہیں زیادہ بہتر اور تیز رفتار سواری ہوا کی عطا فرما دی۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے ہوا کو مسخر کر دیا گیا تھا، جس کی مدد سے وہ جہاں چاہتے بہت جلد بغیر کسی مشکل اور مشقت کے آسانی سے پہنچ جاتے تھے
جاری ہے ..
طالب دعاء
ڈاکٹر عبد العلیم خان
adulnoorkhan@gmail.com

   6
0 Comments